گالی دینے میں مزا کیوں آتا ہے
ٹھوکر کھانے سے ہونے والی تکلیف میں تو شائستہ سے شائستہ انسان کے منہ سے بھی گالی یا کوئی لا یعنی بات نکل جاتی ہے۔ ایسا اضطراری طور پر ہوتا ہے۔ مگر ایسے الفاظ سے ہمیں تسکین کیوں ملتی ہے؟ اس مضمون میں ہم گالی کے محرکات جاننے کی کوشش کریں گے۔
ڈاکٹر برن وضاحت کرتی ہیں ہم اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ گالی کیا ہے اور اس اتفاق رائے کا تعلق بہت حد تک اس بات سے ہوتا ہے کہ کسی خاص ثقافت میں کونسی باتیں منع ہیں بعض ثقافتوں میں جسم کے اعضا کے ذکر سے جذبات مجروح ہوتے ہیں، بعض جگہ جانوروں کے نام سے بعض جگہ بیماریوں کے ذکر سے اور بعض کا تعلق کسی جسمانی فعل سے ہوتا ہے
گالی دینا بری بات ہے لیکن ہمیں ایسا کرنے میں مزا کیوں آتا ہے
کیا اس لیے کہ ہم قدرے شریر ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر ہمارے دماغ اور جسم میں گالی دیتے وقت کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہےایسا ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے، ہمیں ٹھوکر لگ جائے یا ٹریفک میں زخمی ہو جائیں یا چائے چھلک پڑے تو ہمارے منہ سے یکایک غیر شائستہ الفاظ نکل پڑتے ہیں۔جبلی طور پر ہم ایسے کسی واقعے پر کچھ کہہ دیتے ہیں اور عام طور پر منہ سے نکلنے والے یہ مغلظات ہمیں تسکین دیتے ہیں کسی جادو کی طرح ہمیں ایک گونہ فوری سکون مل جاتا ہے۔
Jobs Information
ٹھیک ہے ہم میں سے کچھ دوسروں کے مقابلے میں مغلظات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات لوگ خوش ہونے پر بھی ایسا کر سکتے ہیں۔لیکن آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر ثقافت اور ہر زبان میں یہ بات پائی جاتی ہے اور ضروری نہیں کہ یہ انسانوں کے ساتھ ہی مخصوص ہوکہتی ہیں کہ یہ اس قسم کی زبان ہے جسے ہم صدمے، حیرت، خوشی، مذاق یا جارحیت کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ثقافتی معاملہ ہے جس کا ادارک کسی مخصوص سماج، ملک یا مذہب کے اندر ہی ہوتا ہے
Job Advertisements
No comments:
Post a Comment
please do not enter any spam links in comment box